اب فضاء سے کاربن کم کرنے پر پیسے ملا کریں گے

تحریر مجتبی بیگ

موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ فضاء میں گرین ہاؤس گیسوں کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مقدار ہے جو فضا ء سے سورج کی گرمائش بقدر ضرورت روک کر باقی گرمائش واپس بھیجنے والے قدرتی عمل گرین ہاؤس افیکٹ میں شدت لاکر گرمائش ضرورت سے زیادہ روک کر دنیا میں گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت کا سبب بنتی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کی بڑی وجوہات یہ ہیں
مشینیں اور سواریاں، فوسل فیول یعنی پٹرول، گیس اور کوئلے سے چلانا
رہائش، تجارت اور زراعت کے لیے جنگلات اُجاڑنا
نائٹروجن ملی کھادوں سے زراعت کرنا اور
مویشیوں کو ایسا چارہ کھلانا جو نائٹروجن ملی کھاد سے اُگایا گیا ہو۔

فوسل فیول کی وباء

کم و بیش دوسوسال سے ترقی کا یہی چلن جاری ہے کہ ہر قسم کی ضروریات زندگی پیدا کرنے کے لیے مشینوں پر مکمل انحصار کیا جاتا ہے کیونکہ مشینوں سے پیداوار زیادہ اور جلدی ہوتی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی اشیاء اور خدمات کی معمول سے زیادہ طلب پوری کرنے کے لیے یہی ممکن ہے کہ مشینوں سے اشیاء اور خدمات پیدا کرنے کی رسد میں کوئی تعطل نہ ہونے دیا جائے۔
اتنی زیادہ مقدار میں اشیاء اور خدمات بیچنے والے اور اُن کے پاس کام کرنے والوں کی خوب آمدن ہونے سے اُن کا معیار زندگی بھی بلند ہوا اور وہ ضروریات کے ساتھ ساتھ سہولیات اور تعیشات کے بھی عادی ہوتے گئے جس میں سب سے بڑی سہولت آرام اور پرتعیش سواری ہے جو دنوں کا سفر گھنٹوں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کردیتی ہے یوں ذرائع آمد ورفت ضرورت کے لیے ہی نہیں بلکہ تفریح طبع اور سماجی و تجارتی روابط کے پھیلاؤ کے لیے بھی خوب استعمال ہونے لگے جن میں فوسل فیول سے بنا ایندھن جلایا جانے لگا اور جلنے کے ہر عمل سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہے جو سورج کی گرمائش روکنے کے قدرتی عمل گرین ہاؤس افیکٹ کو حد سے زیادہ مستعد بناکر زیادہ گرمائش رکوالیتی ہیں۔سہولت کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کو ایک مشترکہ پیمانے یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈسے ظاہر کیا جانے لگا جسے اب مختصر کرکے صرف کاربن کہا جاتا ہے۔

Causes of climate change

درجہ حرارت بڑھنے کے اثرات

گرمائش زیادہ رک جانے سے زمین کا محض درجہ حرارت ہی زیادہ نہیں ہونے لگا بلکہ اس کے اثرات موسموں، قدرتی وسائل، معاشی سرگرمیوں، ماحولیاتی نظاموں، جانداروں کی بقاء اور انسانی صحت سب پر نمودار ہونے لگے۔ موسمی آفات یعنی شدید بارشیں، سیلاب، گرمی کی لہریں، طوفان اور خشک سالی کی شدت اور کثرت میں اضافہ ہونے لگا اورگرمی کی وجہ سے برف زار یعنی گلیشیر زیادہ تیزی سے پگھلنے لگے جن کا پانی بہتا ہوا سمندر میں گر کے ضائع ہوکر میٹھنے پانی کی قلت پیدا کرنے لگا اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے سمندر کے آس پاس کے علاقوں کے زیر زمین میٹھے پانی میں بھی کھارا پانی شامل ہوکر اُسے استعمال کے قابل نہیں رہنے دینے لگا اور یوں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حال ہی میں کیلیفورنیا میں لگنے والی آگ بھی انہی اثرات کی ایک کڑی ہے۔

فوسل فیول کا متبادل

جب مشینی پیداوار اور خودکار ذرائع آمدورفت کے بغیر گزارہ مشکل دکھائی دینے لگا تو عالمی رہنماؤں کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر اسی طرح گرین ہاؤس گیسیں فضاء میں خارج ہوتی رہیں تو یہ دنیا تو گرم ہوتے ہوتے الاؤ بن جائے گی۔ جب ایندھن کے استعمال کے بغیر ترقی ناممکن دکھائی دینے لگی تو اُنہوں نے یہ حل پیش کیا کہ فوسل فیول کے بجائے ایسے ذرائع توانائی استعمال کیے جائیں جو ہیں بھی وافر مقدار میں اور اُن سے بجلی بنانے کے دوران اور اُنہیں مشینوں اور گاڑیوں میں استعمال کرنے سے فضاء میں گرین ہاؤس گیسیں بھی خارج نہیں ہوتی ہیں۔

فوسل فیول کا استعمال کب ختم ہوگا

یوں دنیا کے تمام ممالک نے طے کیا کہ سال 2030تک وہ قابل تجدید ذرائع توانائی یعنی شمسی، ہوائی اور آبی ذرائع توانائی کی طرف منتقل ہوکر دنیا سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نصف کردیں گے اور 2050تک یہ اخراج صفر کردیں گے کیونکہ سائنسدانوں نے واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ جو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ پہلے ہی ہوچکا ہے وہ ہوتے ہوتے دو اور پھر تین ڈگری تک ہوجائے گا جس کے بعد زندہ وہی رہ پائے گا جو بہت زیادہ دولتمند ہوگا یعنی وہ ائیرکنڈیشنز کے ذریعے اپنا اطراف مستقل ٹھنڈا رکھ سکے گا جبکہ متوسط اور غریب طبقے کے افراد جو دنیا کی آٹھ ارب آبادی کا پچاسی فیصد ہیں وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔

There is no planet B to migrate if this planet is no more favorable for living

بات اتنی بھی سادہ نہیں

یہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج پہلے مرحلے میں نصف اور اُس کے بعد ختم کردیا جائے کیونکہ ہر ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے فوسل فیول کے ذرائع توانائی کو نہ صرف ختم کردے بلکہ قابل تجدید ذرائع توانائی کے منصوبے بھی اتنی تیزی سے لگا ڈالے۔ایسے میں دنیا کے موسمیاتی رہنماؤں کو ایک انوکھی ترکیب سوجھی جسے فضاء سے کاربن کا اخراج معاوضہ لیکر کم کرنا یعنی کاربن ٹریڈنگ کہتے ہیں۔

معاہد ہ پیرس کیا کہتا ہے

موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے سب سے بڑے معاہدے میثاق پیرس کی شق چھ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ وہ ممالک، منصوبے یا کارخانے جو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہدف کے مطابق کم نہ کرپائیں تو وہ ایسے منصوبوں میں پیسے لگائیں جو فضاء سے کاربن ختم کرنے کے لیے خصوصی طور پر لگائے گئے ہوں جیسے کہ جنگلات اور قابل تجدید توانائی یعنی شمسی، ہوائی اور آبی توانائی کے منصوبے۔ اس کے لیے بھی وہی طریقہ اپنا یا گیا جو اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے مالکانہ حقوق فروخت کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے کہ اربوں ڈالرکی کمپنی کسی ایک سرمایہ کار کو فروخت کرنے کی بجائے اُس کے مالکانہ حقوق شیئرز کی شکل میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اُنہیں ایسے سرمایہ کاروں کو فروخت کیا جائے جو کم قیمت ہونے کے باعث اُنہیں کسی نقصان کے خطرے کے بغیر خرید لیتے ہیں۔

Paris Agreement binds countries to do carbon trading for offsetting their emissions

کاربن کریڈٹ کا جنم

یوں فضاء سے گرین ہاؤس گیسیں کم کرنے کے منصوبوں کے شیئرز کو کاربن کریڈٹ کا نام دیا گیا اور ایک کاربن کریڈٹ ایک ٹن کاربن فضاء سے کم کرنے کی سند کہلایا۔ یوں جو بھی ملک، صنعت، کاروبار یا کوئی اور ادارہ اپنے ہدف سے زیادہ ٹن گرین ہاؤس گیسیں خارج کرے گا اُتنے وہ کاربن کریڈٹ خرید کر اضافی اخراج کی تلافی کرے گا۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور بہت سے ترقی پذیر ممالک میں یہ کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہے البتہ پاکستان میں کاربن ٹریڈنگ کی پالیسی حال ہی میں جاری کرکے اسے ایک رسمی موسمیاتی و اقتصادی سرگرمی کی حیثیت دے دی گئی ہے جس کی رو سے فضاء سے کاربن جذب کرنے کے منصوبے لگا کر جذب شدہ کاربن کی مجموعی مقدار کو ایک ایک ٹن کے کاربن کریڈٹ میں تقسیم کر کے اُنہیں ملکی و غیر ملکی اُن صنعتوں اور اداروں کو فروخت کیا جائے گا جو کاربن کا اخراج اہداف کے مطابق کرنے سے قاصر ہیں۔

کھلی چھوٹ نہیں

ایسے منصوبے ایسا نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ لگا سکتا ہے بلکہ اسے لگانے کا ارادہ کرتے ہی اپنے ارادے کولکھ کر اس کی حکومت پاکستان یا اُس کے مقرر کردہ کسی مجاز ادارے سے منظوری لی جائے گی اُس کے بعد منظور شدہ ارادے کے عین مطابق منصوبہ بناکر اُس کی منظوری لیکر اُس پر عملدرآمد کیا جائے گا اور پھر جتنا کاربن فضاء سے جذب ہوا اُس کا تخمینہ لگانے والے کسی مستند ادارے سے تخمینہ لگواکر اُسے ایک ایک ٹن کے برابر ظاہر کرنے والے کاربن کریڈٹ میں بدل کر اُن کا حکومتی رجسٹری میں اندارج کرکے اُن کی ایسے ممالک اور اداروں کو فروخت کی جائے گی جو اپنے اضافی کاربن کے اخراج کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اُن تمام ہدایات پر بھی عمل کیا جائے گا جو کاربن کریڈٹ کی دوبار گنتی کی روک تھام یا کسی اور مقصد سے کم کیے گئے کاربن کو کاربن کریڈٹ میں تقسیم نہ کرنے کے لیے دی گئی ہوں۔

یہ کب تک ہوجائے گا

حکومت پاکستا ن کی جاری کردہ پالیسی کے تقریباً تمام ہی مندرجات ابھی کاغذی شکل میں ہیں اور اُن میں بتائے گئے جتنے بھی حکومتی کام ہیں اُن کی ابھی شروعات بھی نہیں ہوئی ہے اور حکومتی سابقہ ریکارڈ اور روایتی چلن دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن سب کاموں کو کرنے میں اچھی خاصی دیر لگے گی ایسے میں وہ چھوٹے اور بڑے سرمایہ کار جو اس نئی منافع بخش اقتصای و موسمیاتی سرگرمی میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ جاری کردہ پالیسی میں دیکھ کر ایسے تمام کام جو منصوبہ لگانے سے پہلے سرمایہ کاروں کے کرنے کے ہیں اُن کا اچھی طرح جائزہ لیکر اُن میں سے ایسے کام کرنا ابھی سے شروع کردیں جن پر کوئی خاص لاگت نہیں آتی ہے اور جوں ہی حکومت کی طرف سے اس سرگرمی کے عملی طور پر شروع کرنے کے تمام انتظامات ہوجائیں تو فوری طور پر اس نئے اور منافع بخش کاروبار کا آغاز کردیں۔

3 thoughts on “اب فضاء سے کاربن کم کرنے پر پیسے ملا کریں گے”

  1. Abdul Rahim Hudayar

    یعنی کہ ابھی تک سب کچھ کاغذات کی حد تک درست ہے مگر عملی طور پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی

    1. شروع میں تو ظاہرہے پالیسی سازی کرنی ہوتی ہے اس کے بعد عملدرآمد شروع ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی سست روی کے ساتھ ہوتا ہے

  2. Muhammad Waleed Meeran

    قابلِ تحسین
    اگر کاغذی کروائی کو جلد عملی شکل دے دی جائے تو ضرور مثبت نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Get 30% off your first purchase

X
Scroll to Top