Currently Empty: ₨ 0
Climate Education
موسمیاتی تعلیم کے شعبہ میں امید کی نئی کرن
شاہراہوں پر دھوئیں کے بادل چھوڑتی گاڑیوں کا رش، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، جن میں سے کچھ جل رہے ہیں، اور صاف پانی جو اب صرف اشتہاروں میں مفت ملتا ہے۔ ہیٹ ویو کی لہریں، اچانک سیلاب، تیز بارشیں، اور برف زار جو دھڑام سے پگھل رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے، اور ہم؟ بس پس رہے ہیں، تلملا رہے ہیں۔
کچھ خود ساختہ ماحولیات دان، موسمیاتی تبدیلی کے ”ماہرین“، اور سرگرم کارکنان بلند و بانگ دعووں کے ساتھ کبھی حکومتوں کو کوس رہے ہیں، کبھی سرکاری اداروں پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں، اور کبھی تاجروں اور صنعت کاروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب شعلہ بیانی سے آگے بڑھتا ہے؟
زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماحول کی بہتری کا کوئی عمل دکھائی نہیں دیتا۔ ٹھیک ہے، قانونی کارروائی حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن کیا عوام کا کوئی فرض نہیں؟ کیا ہم صرف تنقید کرکے ہاتھ جھاڑ لیں، یا حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنا کام کرے؟ مگر اس کے لیے تو عوام کو ماحولیاتی و موسمیاتی شعور چاہیے، اور المیہ یہ ہے کہ وہ شعور ہمارے پاس سرے سے ہے ہی نہیں۔ تو کیا ہم یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، یا کوئی ایسی تحریک اٹھے گی جو ہم سب کو جگائے؟ آئیں، اس کہانی کے مزید رنگ دیکھتے ہیں!
تقریبات کا ہجوم، مگر ماحول کی بہتری کہاں؟
آپ نے پاکستان کے بڑے شہروں میں ماحولیاتی و موسمیاتی شعور کے نام پر ہونے والی تقریبات کا رنگارنگ میلہ ضرور دیکھا ہوگا۔ سال کے بارہ مہینے، کوئی نہ کوئی موقع، چاہے وہ عالمی یوم ماحولیات ہو یا کوئی مقامی کانفرنس، ہر جگہ چھوٹی بڑی، امیروں کی شان دار ضیافتوں سے لے کر چائے بسکٹ کی سادہ محفلوں تک، ماحولیاتی شعور کی بات ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر رنگین تصاویر، دلکش پوسٹرز، اور بڑے بڑے دعووں سے لگتا ہے کہ یہ شعور تو گرم کیک کی طرح نہ صرف فروخت ہو رہا ہے بلکہ مفت میں بانٹا بھی جا رہا ہے۔ لیکن ذرا رکیں! اگر یہ سب کچھ اتنا ہی اثر انگیز ہے تو پھر ہمارے ماحول کی حالت کیوں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے؟ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سیلاب معمول بن رہے ہیں، اور زراعت کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل کہتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے۔ بات تو ہوتی ہے، لیکن کیا یہ صرف باتوں تک محدود نہیں؟ چلیں، اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔
تقریبات کی حقیقت: خانہ پوری یا کچھ اور؟
بس یہی وہ بات ہے جو ہر باشعور شخص کے ذہن میں گونجتی ہے۔ نہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان تقریبات میں کوئی گھپلہ یا دھوکا ہے۔ ہرگز نہیں! لیکن ہاں، دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ بات یہ ہے کہ بہت سے اداروں کے لیے یہ تقریبات محض فرائض منصبی کا حصہ ہوتی ہیں۔ بس، سالانہ فنڈز کا جواز بنانے کے لیے، یا اپنی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے، یہ تقریبات جوں توں منعقد کر لی جاتی ہیں۔ اور جوں توں کیا گیا کوئی کام، چاہے وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، اپنا رنگ نہیں دکھاتا۔ ایسی محفلوں میں اکثر اوقات شرکاء کی تعداد تو بڑھائی جاتی ہے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات! فنڈز خرچ ہوتے ہیں، تصاویر بنتی ہیں، واہ واہ ہوتی ہے، لیکن زمینی سطح پر تبدیلی؟ وہ تو خواب ہی رہتی ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں، آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ایسی تقریبات کے بعد ماحولیاتی مسائل کم ہونے کے بجائے کیوں بڑھ رہے ہیں؟ آپ سمجھدار ہیں، بات تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور شعور کی دوڑ
اب ذرا غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی بات کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں بھی ماحولیاتی شعور کے نام پر خوب تقریبات کراتی ہیں۔ لیکن کیا یہ سب بھی فنڈز کے حصول یا خرچ کا جواز بنانے کے لیے نہیں ہوتا؟ سو، ڈیڑھ سو لوگوں کو گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیے اکٹھا کرکے، مہمان خصوصی، صدر مجلس، اور ایک آدھ ماہر سے دس دس منٹ کی تقریریں کروائیں، پھر چائے اور سموسوں کی ضیافت، اور بس ختم کہانی! کیا ایسی تقریبات سے کسی کا شعور جاگتا ہے؟ اگر یقین نہ آئے تو کسی ایسی تقریب کے آخری ایجنڈے پر نظر ڈالیں، جہاں لوگ تو بڑے شوق سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں، لیکن بات کوئی نہیں کر رہا ہوتا۔ سب کے منہ چلتے ہیں، لیکن دماغ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ ایسی محفلوں سے نہ ماحول بچتا ہے، نہ ہی کوئی مستقل تبدیلی آتی ہے۔ یہ تو بس ایک رسم پوری ہوتی ہے، اور بس!
ٹریننگز کا ڈھونگ: پیسے دیں، شعور لیں؟
اب آتے ہیں ان ایک یا دو روزہ ٹریننگز کی طرف، جو سرکاری ادارے اور فنڈز سے مالامال این جی اوز بڑے طمطراق سے منعقد کراتی ہیں۔ لیکن یہ کیا؟ شرکاء کو نہ صرف مفت رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے، بلکہ سفری اخراجات اور یومیہ ہزاروں روپے کا الاؤنس بھی ملتا ہے۔ اور سب سے دلچسپ بات، ان ٹریننگز کے لیے نہ تو کوئی خاص تعلیمی قابلیت درکار ہوتی ہے، نہ ہی تجربہ۔ بس کوئی بھی، جو جیسے تیسے کوئی کام کر رہا ہو، وہ اہل ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، ایسی ٹریننگز میں کتنے لوگ سیکھنے کے لیے آتے ہیں اور کتنے صرف الاؤنس کے چکر میں؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ پیسے دو، شعور لو! لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی ٹریننگز سے نہ تو کوئی مستقل تبدیلی آتی ہے، نہ ہی ماحولیاتی مسائل حل ہوتے ہیں۔ بس، فنڈز خرچ ہوتے ہیں، اور کچھ لوگوں کی جیب گرم ہوتی ہے۔
شعور کی ناکامی: سقراط بننے کی دوڑ
یہ سب دیکھ کر دل کہتا ہے کہ اگر ان تقریبات اور ٹریننگز کا کوئی اثر ہوتا، تو آج ہمارے ماحول کی حالت کچھ اور ہوتی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان سب سرگرمیوں میں بار بار شریک ہونے والے کچھ لوگ خود کو ماحولیاتی و موسمیاتی سقراط سمجھنے لگتے ہیں۔ چند رٹے رٹائے جملوں کے ساتھ وہ ہر محفل لوٹ لیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ لوٹنا کوئی تبدیلی لاتا ہے؟ نہیں! یہ تو بس ایک دکھاوا ہے، ایک تماشا ہے، جس میں ہر کوئی اپنی اپنی دکان چمکانے کے چکر میں ہوتا ہے۔ نتیجہ؟ ماحولیاتی مسائل جوں کے توں، بلکہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل کہتا ہے کہ بس، اب کچھ نیا کرنے کا وقت ہے۔
ایک نئی روشنی: کلائمیٹ ایکشن اسکلز کا قیام
اس ساری صورتحال کو کئی سال تک بغور دیکھنے کے بعد، کراچی سے تعلق رکھنے والے چند مخلص افراد، جو تین دہائیوں سے ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کے شعبے سے وابستہ تھے، نے فیصلہ کیا کہ اب خاموش تماشائی بننے کا وقت ختم ہوا۔ انہوں نے طے کیا کہ زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ یوں، ان چند لوگوں نے مل کر ایک نیا ادارہ قائم کیا، جس کا نام رکھا گیا ”کلائمیٹ ایکشن اسکلز”۔ یہ ادارہ نہ تو ضیافتوں کے پیچھے بھاگتا ہے، نہ ہی پیسوں کی چمک دمک کے چکر میں ہے۔ اس کا مقصد ہے سچائی اور خلوص نیت کے ساتھ ماحولیاتی و موسمیاتی شعور اور تعلیم کو عام کرنا، اور وہ بھی اس انداز میں جو واقعی فرق لائے۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ نہ تو پکوڑوں سموسوں والی تقریبات کریں گے، نہ ہی پیسوں کے لالچ میں ٹریننگز کا ڈھونگ رچائیں گے۔ بس، خلوص اور محنت سے کام کریں گے۔
تین ٹریننگز، ایک نئی امید
اور پھر، صرف آٹھ ماہ کے مختصر عرصے میں کلائمیٹ ایکشن اسکلز نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے ادارے برسوں میں نہ کر سکے۔ انہوں نے تین طویل آن لائن ٹریننگز منعقد کیں، ہر ایک مختلف شعبوں کے افراد کے لیے۔ پہلی ٹریننگ، جو جنوری سے مارچ تک دس ہفتوں پر محیط تھی، تیس سال سے کم عمر گریجویٹس کے لیے کلائمیٹ ایکٹوازم پر تھی، جس میں 42 شرکاء نے کامیابی حاصل کی۔ رمضانوں میں کرائی گئی دوسری ٹریننگ، پانچ ہفتوں کی، ہر عمر کے افراد کے لیے بنیادی موسمیاتی تبدیلی پر تھی، اور اس میں رمضان کی وجہ سے 10 شرکاء نے کورس مکمل کیا۔ تیسری اور حال ہی میں مکمل ہونے والی بارہ ہفتوں کی ٹریننگ کلائمیٹ جرنلزم پر تھی، جس میں دس افراد نے کامیابی سے کورس مکمل کیا۔ یہ سب بغیر کسی ضیافت، بغیر کسی یومیہ معاوضے کے، صرف خلوص اور لگن سے ممکن ہوا۔ یہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں مخلص اور سیکھنے کے خواہشمند لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ بس، ضرورت ہے تو ایسی سرگرمیوں کی جو دل سے دل تک جاتی ہوں، نہ کہ جیب سے جیب تک۔ کلائمیٹ ایکشن اسکلز نے یہ ثابت کر دیا کہ جب نیت صاف ہو، تو نتائج بھی شاندار ہوتے ہیں۔
اس ادارے کی چوتھی ٹریننگ جو کہ کلائمیٹ ایکٹوازم کا دوسرے بیچ بنائے گی 6ستمبر سے شروع ہوگی اور 15نومبر کو ختم ہوگی۔ اس میں 30سال سے کم عمر گریجویٹ صرف 1000روپے فیس دے کر رجسٹریشن کراسکتے ہیں۔ رجسٹریشن فارم کا لنک یہ ہے۔
https://forms.gle/HFDLMyESpf7M76F98
Nisar Muhammad
Good step to awaire people about climate change